ہجر کی رات ہے ویرانہ ہے تنہائی ہے

غزل| لطیف نازؔی انتخاب| بزم سخن

ہجر کی رات ہے ویرانہ ہے تنہائی ہے
دل لگانے کی عجب ہم نے سزا پائی ہے
اک نئے عزم نئے جوش کو دیکھا ہم نے
تیرے عاشق میں نئی بات نظر آئی ہے
مل کے ہاتھوں پہ میرا خونِ جگر کہنے لگے
رنگ کیسا مرے ہاتھوں پہ حنا لائی ہے
تیری صحبت بھی مرے ننگ کا باعث ہے سمجھ
میرے ملنے سے صنم گر تری رسوائی ہے
اور کیا اس کے سوا ہوگی عبادت ناصح
یار کا نقشِ کفِ پا ہے جبیں سائی ہے
محفلِ ناز کی یہ ساری کشش ہے نازیؔ
ورنہ تقدیر مجھے کھینچ کے کیوں لائی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام