بیٹیاں جیسی بھی تھیں ماں کو لگیں شہزادیاں

غزل| حسنؔ عباس رضا انتخاب| بزم سخن

بیٹیاں جیسی بھی تھیں ماں کو لگیں شہزادیاں
یہ بجا لیکن وہ قسمت کی نہ تھیں شہزادیاں
جانے خواہش کی براتیں کون دریا لے گئے
سوچ دروازوں میں تکتی رہ گئیں شہزادیاں
جسم کی چاندی سفر کرتی سروں تک آ گئی
اب ملن رت کا کریں کیسے یقیں شہزادیاں
قصرِ خواہش پر کمندیں ہم نے ڈالی تھیں مگر
خواب محلوں سے نہ باہر آ سکیں شہزادیاں
آس آئینوں پہ اک پتھر گرا پھر عمر بھر
کرچی کرچی خواہشیں چنتی رہیں شہزادیاں
ہم سخن کی سلطنت کے شاہزادے ہیں رضاؔ
شاعری کے روپ میں ہم کو ملیں شہزادیاں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام