جو بھی غنچہ تیرے ہونٹوں پہ کھلا کرتا ہے

غزل| قتیلؔ شفائی انتخاب| ابو الحسن علی

جو بھی غنچہ تیرے ہونٹوں پہ کھلا کرتا ہے
وہ میری تنگئ داماں کا گلہ کرتا ہے
دیر سے آج میرا سر ہے تیرے زانوں پر
یہ وہ رتبہ ہے جو شاہوں کو ملا کرتا ہے
میں تو بیٹھا ہوں دبائے ہوئے طوفانوں کو
تو میرے دل کے دھڑکنے کا گلہ کرتا ہے
رات یوں چاند کو دیکھا ہے ندی میں رقصاں
جیسے جھومر تیرے ماتھے پہ ہلا کرتا ہے
جب میری سیج پہ ہوتا ہے بہاروں کا نزول
صرف ایک پھول کواڑوں میں کھلا کرتا ہے
کون کافر تجھے الزامِ تغافل دے گا
جو بھی کرتا ہے محبت سے گلہ کرتا ہے

لوگ کہتے ہیں جسے نیل کنول وہ تو قتیلؔ
شب کو ان جھیل سی آنکھوں میں کھلا کرتا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام