بدن کے جام میں کھلتے گلاب جیسی ہے

غزل| قتیلؔ شفائی انتخاب| بزم سخن

بدن کے جام میں کھلتے گلاب جیسی ہے
سنا ہے اُس کی جوانی شراب جیسی ہے
کنول کنول ہے سراپا غزل غزل چہرہ
وہ ہو بہو کسی شاعر کے خواب جیسی ہے
اندھیرے دور کرے سب کی پارسائی کے
وہ ایک شکل کہ جو ماہتاب جیسی ہے
بغیر جام و سبو چاند رات کی حالت
کِسی غریب کے عہدِ شباب جیسی ہے
نہ شاعری نہ محبت نہ جام اے واعظ
یہ زندگی بھی تری اک عذاب جیسی ہے
قتیلؔ میں نے کیا پیار اک ستم گر سے
یہ وہ خطا ہے جو کارِ ثواب جیسی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام