ٹوٹنے پر کوئی آئے تو پھر ایسا ٹوٹے

غزل| جوادؔ شیخ انتخاب| بزم سخن

ٹوٹنے پر کوئی آئے تو پھر ایسا ٹوٹے
کہ جسے دیکھ کے ہر دیکھنے والا ٹوٹے
تو اسے کس کے بھروسے پہ نہیں کات رہی؟
چرخ کو دیکھنے والی! ترا چرخہ ٹوٹے
اپنے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو سمیٹے کب تک
ایک انسان کی خاطر کوئی کتنا ٹوٹے
کوئی ٹکڑا تری آنکھوں میں نہ چبھ جائے کہیں
دور ہو جا کہ مرے خواب کا شیشہ ٹوٹے
میں کسی اور کو سوچوں تو مجھے ہوش آئے
میں کسی اور کو دیکھوں تو یہ نشہ ٹوٹے
رنج ہوتا ہے تو ایسا کہ بتائے نہ بنے
جب کسی اپنے کے باعث کوئی اپنا ٹوٹے
پاس بیٹھے ہوئے یاروں کو خبر تک نہ ہوئی
ہم کسی بات پہ اس درجہ انوکھا ٹوٹے
اتنی جلدی تو سنبھلنے کی توقع نہ کرو
وقت ہی کتنا ہوا ہے مرا سپنا ٹوٹے
داد کی بھیک نہ مانگ اے مرے اچھے شاعر
جا تجھے میری دعا ہے ترا کاسہ ٹوٹے
ورنہ کب تک لئے پھرتا رہوں اس کو جوادؔ
کوئی صورت ہو کہ امید سے رشتہ ٹوٹے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام