تخلیق اگر ہوا تھا میں آنے سے پیش تر

غزل| علیؔ مزمل انتخاب| بزم سخن

تخلیق اگر ہوا تھا میں آنے سے پیش تر
کس شکل میں تھا شکل میں لانے سے پیش تر
کرتا بھی کیا کہ میں بھی انا کا اسیر تھا
میں اٹھ گیا تھا اس کے اٹھانے سے پیش تر
ہر راہ رَو کے سر پہ ہما بیٹھتا نہیں
بابِ فصیلِ شہر میں جانے سے پیش تر
جھکنا پڑا جو شاہ کی تعظیم کے لیے
میں مر گیا تھا خود کو جھکانے سے پیش تر
خود سے ملن کا خواب میں وعدہ تھا اس لئے
میں سو گیا تھا خود کو سلانے سے پیش تر
پہلے تخیلات میں تجسیم کر لیا
اس کے ہوا میں نقش بنانے سے پیش تر

بے طاقتی نہ پوچھ بدن کی مرے علیؔ
میں گر پڑا ہوں خود کو اٹھانے سے پیش تر


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام