ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے

غزل| مظفرؔ وارثی انتخاب| بزم سخن

ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہیں لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے
جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا
سولیوں سے یہاں پیمائشِ قد ہوتی ہے
شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے

کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجازِ سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام