بچھڑا وہ گویا زیست میں آیا کبھی نہ تھا

غزل| رشید حسرتؔ انتخاب|

بچھڑا وہ گویا زیست میں آیا کبھی نہ تھا
اس نے مرے مزاج کو سمجھا کبھی نہ تھا
لہجے میں اس کے ترشی بھی ایسی کبھی نہ تھی
دل اس بری طرح مرا ٹوٹا کبھی نہ تھا
گو اضطراب کی تو نہ تھی وجہِ ظاہری
دل کو مگر قرار کبھی تھا کبھی نہ تھا
مانا کہ زندگانی میں آئے گئے ہیں لوگ
کوئی بھی اُس گلاب نما سا کبھی نہ تھا
آیا بھی میرے شہر ، ملے بن بھی جا چکا
جیسا ہوا ہوں آج میں تنہا کبھی نہ تھا
گھٹنے ہی اس نے ٹیک دیئے ہار مان لی
لوگو! وہ ایک شخص جو ہارا کبھی نہ تھا
راہِ وفا میں دشت بھی تھے وحشتیں بھی تھیں
گر کچھ نہ تھا تو زلف کا سایہ کبھی نہ تھا
جھیلا ہے درد ہنستے ہوئے کھیلتے ہوئے
کیا شخص تھا جو شکوہ سراپا کبھی نہ تھا

راتیں کٹی ہیں دن بھی گزارے گئے رشیدؔ
دیتا جو دکھ میں ساتھ سہارا کبھی نہ تھا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام