شجر پہ پھول تو چہرے پہ لب لگے ہوئے ہیں

غزل| شہپرؔ رسول انتخاب| بزم سخن

شجر پہ پھول تو چہرے پہ لب لگے ہوئے ہیں
ہمیں خبر ہے کہ جس کے سبب لگے ہوئے ہیں
تو یہ ہیں اصل حریف ایسا تو گماں بھی نہ تھا
یہ میرے ساتھ جو نام و نسب لگے ہوئے ہیں
ہے کوئی گوشۂ دنیا جو شر سے خالی ہو
ادب کے پیچھے بھی کچھ بے ادب لگے ہوئے ہیں
اُسے ملا ہے جو ایسے ہمیں وہ کیسے ملے
اُدھیڑ پن میں اِسی سب کے سب لگے ہوئے ہیں
یہ پھول پھل جو نظر آ رہے ہیں شاخوں پر
لہو بدن کا نچوڑا ہے تب لگے ہوئے ہیں
تمہارے جانے کے بعد اُن پہ بات ہوتی ہے
تمہارے نام سے جو کچھ لقب لگے ہوئے ہیں

لگا ہے اُس کا سراپا سبھی کو سب سے جدا
مگر وہ نین تو شہپرؔ غضب لگے ہوئے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام