پھولوں میں وہ خوشبو وہ صباحت نہیں آئی

غزل| اعتبارؔ ساجد انتخاب| بزم سخن

پھولوں میں وہ خوشبو وہ صباحت نہیں آئی
اب تک ترے آنے کی شہادت نہیں آئی
موسم تھا نمائش کا مگر آنکھ نہ کھولی
جاناں! ترے زخموں کو سیاست نہیں آئی
جو روح سے آزار کی مانند لپٹ جائے
ہم پر وہ گھڑی اے شبِ وحشت نہیں آئی
اے دشتِ انا الحق ترے قربان ابھی تک
وہ منزلِ اظہارِ صداقت نہیں آئی
ہم لوگ کہ ہیں ماؤں سے بچھڑے ہوئے بچے
حصّے میں کسی کے بھی محبت نہیں آئی
ہم نے تو بہت حرف تری مدح میں سوچے
افسوس کہ شنوائی کی نوبت نہیں آئی
لرزے بھی نہیں شہر کے حسّاس در و بام
دل راکھ ہوئے پھر بھی قیامت نہیں آئی

ساجدؔ وہ سحر جس کے لئے رات بھی روئی
آئی تو سہی ، حسبِ ضرورت نہیں آئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام