خاک نیند آئے اگر دیدۂ بیدار ملے

غزل| ساقیؔ فاروقی انتخاب| بزم سخن

خاک نیند آئے اگر دیدۂ بیدار ملے
اس خرابے میں کہاں خواب کے آثار ملے
اس کے لہجے میں قیامت کی فسوں کاری تھی
لوگ آواز کی لذّت میں گرفتار ملے
اس کی آنکھوں میں محبت کے دئیے جلتے رہیں
اور پندار میں انکار کی دیوار ملے
میرے اندر اسے کھونے کی تمنا کیوں ہے
جس کے ملنے سے مری ذات کو اظہار ملے

روح میں رینگتی رہتی ہے گنہ کی خواہش
اس امر بیل کو اک دن کوئی دیوار ملے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام