نظر حیران دل ویران ، میرا جی نہیں لگتا

غزل| جونؔ ایلیا انتخاب| بزم سخن

نظر حیران دل ویران ، میرا جی نہیں لگتا
بچھڑ کے تم سے میری جان! ، میرا جی نہیں لگتا
کوئی بھی تو نہیں ہے جو پکارے راہ میں مجھ کو
ہوں میں بے نام اک انسان ، میرا جی نہیں لگتا
ہے اک انبوہ قدموں کا رواں ان شاہراہوں پر
نہیں کوئی میری پہچان ، میرا جی نہیں لگتا
جہاں ملتے تھے ہم تم اور جہاں مل کر بچھڑتے تھے
نہ وہ در ہے نہ وہ دالان ، میرا جی نہیں لگتا
ہوں پہچانے ہوئے چہرے تو جی کو آس رہتی ہے
ہوں چہرے ہجر کے عنوان ، میرا جی نہیں لگتا
یہ سارا شہر اک دشتِ ہجومِ بے نیازی ہے
یہاں کا شور ہے ویران ، میرا جی نہیں لگتا
وہ عالم ہے کہ جیسے میں کوئی ہم نام ہوں اپنا
نہ حرماں ہے نہ وہ درمان ، میرا جی نہیں لگتا
کہیں سر ہے کہیں سودا کہیں وحشت کہیں صحرا
کہیں میں ہوں کہیں سامان ، میرا جی نہیں لگتا
میرے ہی شہر میں میرے محلّہ میں میرے گھر میں
بلا لو تم مجھے مہمان ، میرا جی نہیں لگتا
میں تم کو بھول جاؤں بھولنے کا دکھ نہ بھولوں گا
نہیں ہے کھیل یہ آسان ، میرا جی نہیں لگتا
کوئی پیمان پورا ہو نہیں سکتا مگر پھر بھی
کرو تازہ کوئی پیمان ، میرا جی نہیں لگتا
کچھ ایسے ہے کہ جیسے میں یہاں ہوں ایک زندانی
ہیں سارے لوگ زنداں بان ، میرا جی نہیں لگتا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام