وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو برا اس کو

غزل| نصیرؔ ترابی انتخاب| بزم سخن

وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو برا اس کو
کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اس کو
نظر نہ آئے تو اس کی تلاش میں رہنا
کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اس کو
وہ سادہ خو تھا زمانے کے خم سمجھتا کیا
ہوا کے ساتھ چلا لے اڑی ہوا اس کو
وہ اپنے بارے میں کتنا ہے خوش گماں دیکھو
جب اس کو میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اس کو
ابھی سے جانا بھی کیا اس کی کم خیالی پر
ابھی تو اور بہت ہو گا سوچنا اس کو
اسے یہ دھن کہ مجھے کم سے کم اداس رکھے
مری دعا کہ خدا دے یہ حوصلہ اس کو
پناہ ڈھونڈ رہی ہے شبِ گرفتہ دلاں
کوئی بتاؤ مرے گھر کا راستہ اس کو
غزل میں تذکرہ اس کا نہ کر نصیرؔ کہ اب
بھلا چکا وہ تجھے تو بھی بھول جا اس کو



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام