توڑ کر عہدِ کرم نا آشنا ہوجائیے

غزل| حسرتؔ موہانی انتخاب| بزم سخن

توڑ کر عہدِ کرم نا آشنا ہوجائیے
بندہ پرور جائیے پھر سے خفا ہوجائیے
میرے عذرِ جرم پر مطلق نہ کیجئے التفات
بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہوجائیے
خاطرِ محروم کو کر دیجئے محوِ الم
در پئے ایذائے جانِ مبتلا ہوجائیے
راہ میں ملئے کبھی مجھ سے تو از راہِ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فوراً جدا ہوجائیے
گر نگاہِ شوق کو محوِ تماشا دیکھئے
قہرکی نظروں سے مصروفِ سزا ہوجائیے
میری تحریرِ ندامت کا نہ دیجئے کچھ جواب
دیکھ لیجئے اور تغافل آشنا ہوجائیے
مجھ سے تنہائی میں گر ملئے تو دیجئے گالیاں
اور بزمِ غیر میں جانِ حیا ہوجائیے
ہاں یہی میری وفائے بے اثر کی ہے سزا
آپ کچھ اس سے بھی بڑھ کر پرجفا ہوجائیے
جی میں آتا ہے کہ اس شوخِ تغافل کیش سے
اب نہ ملئے پھر کبھی اور بے وفا ہوجائیے
کاوشِ دردِ جگر کی لذتوں کو بھول کر
مائلِ آرام و مشتاقِ شفا ہوجائیے
ایک بھی ارماں نہ رہ جائے دلِ مایوس میں
یعنی آخر بے نیازِ مدعا ہوجائیے
بھول کر بھی اس ستم پرور کی پھر آئے نہ یاد
اس قدر بیگانۂ عہدِ وفا ہوجائیے
ہائے رے بے اختیاری یہ تو سب کچھ ہو مگر
اس سراپا ناز سے کیوں کر خفا ہوجائیے
چاہتا ہے مجھ کو تو بھولے نہ بھولوں میں تجھے
تیرے اس طرزِ تغافل پر فدا ہوجائیے
کشمکش ہائے الم سے اب یہ حسرتؔ جی میں ہے
چُھٹ کے ان جھگڑوں سے مہمانِ قضا ہوجائیے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام