یہ کیا ستم ہے کہ احساسِ درد بھی کم ہے

غزل| شاہدؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

یہ کیا ستم ہے کہ احساسِ درد بھی کم ہے
شبِ فراق ستاروں میں روشنی کم ہے
یہ کیسی موجِ کرم تھی نگاہِ ساقی میں
کہ اس کے بعد سے طوفانِ تشنگی کم ہے
قریب و دور سے آتی ہے آپ کی آواز
کبھی بہت ہے غمِ جستجو کبھی کم ہے
شعورِ عشق اب آیا ہے اپنی منزل پر
حضور حسنِ تمنائے بے خودی کم ہے
تمام عمر ترا انتظار کرلیں گے
مگر یہ رنج رہے گا کہ زندگی کم ہے
عروجِ ماہ کو انساں سمجھ گیا لیکن
ہنوز عظمتِ انساں سے آگہی کم ہے
نہ تھے بہارِ چمن ہم مگر یہ سنتے ہیں
ہمارے بعد گلوں میں شگفتگی کم ہے
نہ ساتھ دیں گی یہ دم توڑتی ہوئی شمعیں
نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام