مرے پیچھے یہ تو محال ہے کہ زمانہ گرم سفر نہ ہو

غزل| مجروحؔ سلطان پوری انتخاب| بزم سخن

مرے پیچھے یہ تو محال ہے کہ زمانہ گرمِ سفر نہ ہو
کہ نہیں مرا کوئی نقشِ پا جو چراغِ راہ گذر نہ ہو
رخِ تیغ سے جو نہ ہو کبھی سحر ایسی کوئی نہیں مری
نہیں ایسی ایک بھی شام جو تہِ زلفِ دار بسر نہ ہو
مرے ہاتھ ہیں تو بنوں گا خود میں اب اپنا ساقیٔ میکدہ
خمِ غیر سے تو خدا کرے لبِ جام بھی مرا تر نہ ہو
میں ہزار شکل بدل چکا چمنِ جہاں میں سن اے صبا
کہ جو پھول ہے ترے ہاتھ میں یہ مرا ہی لختِ جگر نہ ہو
جنہیں سب سمجھتے ہیں مہر و مہ نہ ہوں صرف چند نقوشِ پا
جسے کہتے ہیں کرۂ زمیں فقط ایک سنگِ سفر نہ ہو
ترے پا زمیں پہ رکے رکے ترا سر فلک پہ جھکا جھکا
کوئی تجھ سے بھی ہے عظیم تر یہی وہم تجھ کو مگر نہ ہو

شبِ ظلم نرغۂ راہزن سے پکارتا ہے کوئی مجھے
میں فرازِ دار سے دیکھ لوں کہیں کاروانِ سحر نہ ہو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام