تو دکھ اٹھا رہا ہے جسے بھول جانے کا

غزل| سعودؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

تو دکھ اٹھا رہا ہے جسے بھول جانے کا
پاگل! یہی تو روگ ہے جی کو لگانے کا
تم میں سے میں بھی ہوں سو مرا فیصلہ بھی ہے
گلزار خرچ کرنے کا صحرا کمانے کا
اے کوہسار و ارض و سما ! چاہے کچھ کہو
اب میں نہیں یہ بارِ امانت اٹھانے کا
کچھ رنگ زنگ ہوگئے کچھ عکس بجھ گئے
منظر بدلتا جاتا ہے آئینہ خانے کا
اس چومکھے چراغ کو کتنا خیال ہے
تیرا ، حریمِ حرف کا ، دل کا ، زمانے کا
مالک! بساط بھر تو سخن کر رہا ہوں میں
سو مجھ کو وہم بھی نہیں بے کار جانے کا

کیسا ہے یہ چراغِ رواں کا سفر سعودؔ
تاریکیوں کے بیچ سے رستہ بنانے کا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام