محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے

غزل| حبیب جالبؔ انتخاب| بزم سخن

محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے
ترے شہر میں اک جہاں چھوڑ آئے
پہاڑوں کی وہ مست شاداب وادی
جہاں ہم دلِ نغمہ خواں چھوڑ آئے
وہ سبزہ وہ دریا وہ پیڑوں کے سائے
وہ گیتوں بھری بستیاں چھوڑ آئے
حسیں پنگھٹوں کا وہ چاندی سا پانی
وہ برکھا کی رت وہ سماں چھوڑ آئے
ملے تھے بہت ہم سفر زندگی میں
نہیں یاد کس کو کہاں چھوڑ آئے
بہت دور ہم آ گئے اس گلی سے
بہت دور وہ آستاں چھوڑ آئے
بہت مہرباں تھیں وہ گلپوش راہیں
مگر ہم انہیں مہرباں چھوڑ آئے
بگولوں کی صورت یہاں پھر رہے ہیں
نشیمن سرِ گلستاں چھوڑ آئے
یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
جو دامن پہ آئیں تو ہو جائیں رسوا
کچھ ایسے بھی اشکِ رواں چھوڑ آئے
چلے آئے ان رہ گزاروں سے جالبؔ
مگر ہم وہاں قلب و جاں چھوڑ آئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام