اس در پہ بھی لگتا نہیں جی دیکھئے کیا ہو

غزل| خلیل الرحمن اعظمیؔ انتخاب| بزم سخن

اس در پہ بھی لگتا نہیں جی دیکھئے کیا ہو
ہے اب کے عجب دل کی لگی دیکھئے کیا ہو
دیکھا تھا سرِ شام کہ رس آ تو چلا تھا
چٹکی نہ مگر دل کی کلی دیکھئے کیا ہو
کیا غیر کی پہچان کہ اب شہرِ جنوں میں؟
ہوتی نہیں وہ سنگ زنی دیکھئے کیا ہو
آ آ کے گزر جائے ہے ہر موجۂ پرخوں
ہے یاں وہی شوریدہ سری دیکھئے کیا ہو
چمکے ہیں ابھی چند ستارے سرِ مژگاں
باقی ہے بہت رات ابھی دیکھئے کیا ہو
جلتا نہیں اب کوئی دیا دل کے نگر میں
ویران ہے ایک ایک گلی دیکھئے کیا ہو
اب دور کہیں چل کے ذرا اپنے کو ڈھونڈیں
اپنے ہی سے لگتے ہیں سبھی دیکھئے کیا ہو
ڈر ہے ترا دامن نہ چھٹے ہاتھ سے ساقی
باقی نہیں اب تشنہ لبی دیکھئے کیا ہو

بھولے سے یونہی آ گئی سچ بات زباں پر
ہر لفظ یہ تلوار چلی دیکھئے کیا ہو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام