لباسِ جسم کی اک اک شکن سے بولتا ہے

غزل| خورشید طلبؔ انتخاب| بزم سخن

لباسِ جسم کی اک اک شکن سے بولتا ہے
وہ بولتا ہے تو سارے بدن سے بولتا ہے
یہاں ہے کوئی ترا غم گسار تو میں ہوں
غبارِ راہ غریب الوطن سے بولتا ہے
کہاں سے آتے ہیں ذہنوں میں تازہ تازہ خیال
یہ کون ہے جو ہمارے دہن سے بولتا ہے
ابھارتا ہے وہ رنگوں سے اک جہانِِ طلسم
جو بولنا ہو اسے پیرہن سے بولتا ہے
زبان اپنی ملاحت پہ خون روتی ہے
کسی سے جب بھی کوئی روکھے پن سے بولتا ہے
چمن میں جو بھی ہے رونق اسی کے دم سے ہے
کبھی سنا ہے کوئی گل چمن سے بولتا ہے
پہاڑ اتنی خموشی سے کیسے ٹوٹ گیا
یہاں تو شیشہ بھی ٹوٹے تو چھن سے بولتا ہے
اسے کسی کی سماعت پہ اعتبار نہیں
وہ اپنی بات سدا اپنے من سے بولتا ہے
تری نمود کی خاطر جلا ہوں میں شب بھر
چراغ صبح کی پہلی کرن سے بولتا ہے
جو عمر بھر کی ریاضت کے بعد آتا ہے
وہ اعتماد طلبؔ تیرے فن سے بولتا ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام