کیا کہیں اُس سے ملاقات نہ ہونے پائی

غزل| نوحؔ ناروی انتخاب| بزم سخن

کیا کہیں اُس سے ملاقات نہ ہونے پائی
چل دیا شام کو وہ رات ہونے پائی
ہم کو حسرت ہی رہی اُن کو تنفر ہی رہا
وصل کیسا کہ ملاقات نہ ہونے پائی
دور ہی دور سے ہوتے رہے پیغام و سلام
دو بدو اُن کی مری بات نہ ہونے پائی
اشک پھر پھر گئے آ آ کے مری آنکھوں تک
موسلا دھار کی برسات نہ ہونے پائی
ڈر اُنھیں خوف مجھے اُن کو حیا مجھ کو لحاظ
جلدی جلدی میں کوئی بات نہ ہونے پائی
نوح دو بار ملے حضرت استاد سے ہم
تیسری بار ملاقات نہ ہونے پائی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام