بے نام سا یہ درد ٹہر کیوں نہیں جاتا

غزل| نداؔ فاضلی انتخاب| بزم سخن

بے نام سا یہ درد ٹہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
سب کچھ تو ہے کیا ڈُونڈھتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا
وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشہ
جاتے ہیں جدھر سب میں اُدھر کیوں نہیں جاتا

وہ خواب جو برسوں سے نہ چہرہ نہ بدن ہے
وہ خواب ہواوؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام