زیست آوارہ سہی زلفِ پریشان کی طرح

غزل| مجیبؔ خیر آبادی انتخاب| بزم سخن

زیست آوارہ سہی زلفِ پریشان کی طرح
دل بھی اب ٹوٹ چکا ہے ترے پیماں کی طرح
تو بہاروں کی طرح مجھ سے گریزاں ہی سہی
میں نے چاہا ہے تجھے اپنے دل و جاں کی طرح
زندگی تیری تمنّا کے سوا کچھ بھی نہیں
ہم سے دامن نہ بچا ابرِ گُریزاں کی طرح
تیرے عارض کے گلابوں کی مہک اور بڑھے
تو فروزاں ہی رہے شمعِ فروزاں کی طرح
اُس کی قربت میں گزارے ہوئے لمحوں کا خیال
اب بھی پیوست ہے دل میں کسی پیکاں کی طرح
اُس کی آنکھوں میں بھی روشن ہیں تمنّا کے چراغ
اُس کا دامن بھی ہے اب میرے گریباں کی طرح
اب کسی جانِ تمنا کو بھلا کیا معلوم
دِل سلگتا ہے چراغ تہہِ داماں کی طرح
ایک دستک سی درِ دل پہ سنائی دی ہے
کون گزرا ہے نسیمِ چمنستاں کی طرح
یوں نہ ہو پھر کوئی بے رحم ہوا کا جھونکا
لے اڑے کشتیٔ دِل موجۂ طوفاں کی طرح
جرم اِتنا کہ نہ تھا غمزۂ خوباں کا دماغ
قید اِس شہرمیں ہیں یوسفِ کنعاں کی طرح
ہم سے الجھیں نہ فقیہانِ حرم سے کہہ دو
ہم بھی مجبور ہیں اِس دور کے انساں کی طرح
کوئی آواز نہ آہٹ نہ کوئی شوخ کرن
ذہن تاریک ہے اب گوشۂ زنداں کی طرح
آؤ ہم اہلِ جنوں مشعلِ جاں لے کے چلیں
راہ پُرپیچ سہی کاکلِ پپیچاں کی طرح
زندگی باعثِ آزارِ دل و جاں ہے مجیبؔ
قہر برسا ہے مگر رحمتِ یزداں کی طرح



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام