كام اس کا نہ کسی ڈھب سے نہ تیور سے چلا

غزل| پیر سید نصیر الدین نصیؔر انتخاب| بزم سخن

كام اس کا نہ کسی ڈھب سے نہ تیور سے چلا
کوئی تھامے ہوئے دل آج ترے در سے چلا
لے کے دل اس نے الٹ دی ہے بساطِ الفت
چال اپنی بھی چلا وہ تو مرے گھر سے چلا
چشمِ ساقی نے پلائی تو کہیں بات بنی
کام میکش کا نہ شیشے سے نہ ساغر سے چلا
آ بھی جا ! ورنہ یہ بیمار شب ہجر نہیں
قبر میں جا کے یہ ٹھہرے گا جو بستر سے چلا
کس لئے دل کو رہِ شوق کا ساتھی نہ کہوں
ہر قدم ساتھ دیا میرے برابر سے چلا
بات تھی اس کی کہ کلیوں کے چٹکنے کا سماں
رنگ و آہنگ کا جھونکا سا گلِ تر سے چلا
لکھ گیا حالِ جنوں شہر کی دیواروں پر
اک وہ فوارہ لہو کا جو مرے سر سے چلا
قیس و فرہاد ہوں یا دامق و عذرا اب تک
نام جس کا بھی چلا عشق کے دفتر سے چلا
راہِ الفت میں کسی بت سے توقع ہے فضول
کھا گیا چوٹ وہ ٹکرا کے جو پتھر سے چلا
راستے مہکے در و بام پہ رونق آئی
موجۂ بادِ سحر بن کے کوئی گھر سے چلا
عشق کی راہ میں منزل ہے تو تسلیم و نیاز
دو قدم چل نہ سکا چال جو دل بر سے چلا
میرے گھر پر بھی نصیرؔ آج کوئی آیا ہے
بات قسمت سے بنی کام مقدر سے چلا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام