میری زندگی تو فراق ہے وہ ازل سے دل میں مکیں سہی

غزل| پیر سید نصیر الدین نصیؔر انتخاب| بزم سخن

میری زندگی تو فراق ہے وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن وہ کسی طرح وہ کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی
سرِ طور ہو سرِ حشر ہو ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی
نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انہی کا تھا میں انہی کا ہوں وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں تیری انجمن کے قریں سہی
تیرا در تو ہم کو نہ مل سکا تیری رہ گزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے جو وہاں نہیں تو یہیں سہی
میری زندگی کا نصیب ہے نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اس کا غم تو نصیب ہے وہ اگر نہیں تو نہیں سہی
جو ہو فیصلہ وہ سنائیے اسے حشر پر نہ اٹھائیے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی تو نصیؔر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہوں وہ ہزار پردہ نشیں سہی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام