جب کبھی نامِ محمدؐ لب پہ میرے آئے ہے

غزل| بسملؔ عظیم آبادی انتخاب| بزم سخن

جب کبھی نامِ محمدؐ لب پہ میرے آئے ہے
لب سے لب ملتے ہیں جیسے دل سے دل مل جائے ہے
جب کوئی غنچہ چمن کا بن کھلے مرجھائے ہے
کیا کہیں کیا کیا چمن والوں کو رونا آئے ہے
کوئی کہہ دیتا کہ اب کاہے کو قاصد آئے ہے
ضعف سے بیمار کو اٹّھا نہ بیٹھا جائے ہے
ہو نہ ہو کچھ بات ہے تب جی مرا گھبرائے ہے
آپ آئے ہیں نہ خط ہی بھیج کر بلوائے ہے
رات بھی روتے کٹی ہے دن بھی گزرا جائے ہے
آنے والا کچھ نہیں معلوم کب سے آئے ہے
تیرے دیوانے پہ ایسی بھی گھڑی آ جائے ہے
دم بخود رہ جائے ہے سوچا نہ سمجھا جائے ہے
ایک دن وہ دن تھے رونے پر ہنسا کرتے تھے ہم
ایک یہ دن ہیں کہ اب ہنسنے پہ رونا آئے ہے
برق کو کیا جانے کیا ضد ہے نشیمن سے مرے
چار تنکوں کی قسم وہ بھی نہ دیکھا جائے ہے
ہجر کی راتوں میں بھی تنہا کہاں رہتا ہے ذہن
تم کبھی آ جاؤ ہو دشمن کبھی آ جائے ہے
جی میں رکھتے ہیں کہیں بھی تو کسی سے کیا کہیں
شکوہ ان کا یوں تو لب پر بار بار آ جائے ہے
بگڑی بن جاتی ہے یہ سچ ہے مگر اے ہم نشیں
نامرادی کا برا ہو جی ہی بیٹھا جائے ہے
اک غلط سجدے سے کیا ہوتا ہے واعظ کچھ نہ پوچھ
عمر بھر کی سب ریاضت خاک میں مل جائے ہے

آپ کی اک زلف سلجھانے کو لاکھوں ہاتھ ہیں
میری گتھی بھی کوئی آ کر کبھی سلجھائے ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام