ہم خلوص والے ہیں یہ بھی کر دِکھائیں گے

غزل| حفیظؔ میرٹھی انتخاب| بزم سخن

ہم خلوص والے ہیں یہ بھی کر دِکھائیں گے
تہمتیں خریدیں گے خدمتیں لُٹائیں گے
یا تو ہوں گے زنداں میں یا ملیں گے مقتل میں
بزدلوں کی محفل میں ہم نظر نہ آئیں گے
اس لئے بھی اپنوں کو منہ نہیں لگاتے وہ
ننگے بھوکے رشتہ دار آئے تو ستائیں گے
اُس سے کچھ طلب کرکے ہم نہ ہوں گے شرمندہ
مہرباں نہ ہونے کا فائدہ اٹھائیں گے
چکھ لیا ہے اب ہم نے ذائقہ قناعت کا
جذبۂ ہوس تیرے ہاتھ ہم نہ آئیں گے

ائے حفیظؔ برپا ہے بزم نوجوانوں کی
لاکھ روکے بیماری ہم ضرور جائیں گے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام