جگر میں اور کبھی دل میں کسک معلوم ہوتی ہے

غزل| سلیم دردؔ وارثی انتخاب| بزم سخن

جگر میں اور کبھی دل میں کسک معلوم ہوتی ہے
کمی ائے دوست! تیری آج تک معلوم ہوتی ہے
مری بزمِ تصور میں یہ کس نے پاؤں رکھے ہیں
کہ ذہن و دل میں پھولوں کی مہک معلوم ہوتی ہے
یقیناً کوچۂ محبوب سے یہ ہو کے آئی ہے
ہوا میں اُن کی زلفوں کی مہک معلوم ہوتی ہے
نہیں ہے جرم جب کوئی حدیثِ دل بیاں کرنا
تو پھر کہنے میں کیوں تم کو جھجھک معلوم ہوتی ہے

خدا حافظ وہ کہہ کر دردؔ کیا رخصت ہوئے ہم سے
اداسی ہی اداسی دور تک معلوم ہوتی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام