اپنی بیتی ہوئی رنگین جوانی دے گا

غزل| عزیز بانو داراب وفاؔ انتخاب| بزم سخن

اپنی بیتی ہوئی رنگین جوانی دے گا
مجھ کو تصویر بھی دے گا تو پرانی دے گا
چھوڑ جائے گا مرے جسم میں بکھرا کے مجھے
کل وہ پیغام ہواوؤں کی زبانی دے گا
عادتیں ملتی ہیں سورج سے بہت کچھ اس کی
وقتِ رخصت بھی وہ اک شام سہانی دے گا
عمر بھر میں کوئی جادو کی چھڑی ڈھونڈوں گی
میری ہر رات کو پریوں کی کہانی دے گا
ہم سفر میل کا پتھر نظر آئے گا کوئی
فاصلہ پھر مجھے اس شخص کا ثانی دے گا
میرے ماتھے کی لکیروں میں اضافہ کر کے
وہ بھی ماضی کی طرح اپنی نشانی دے گا
میں نے یہ سوچ کے بوئے نہیں خوابوں کے درخت
کون جنگل میں لگے پیڑ کو پانی دے گا
برف ہوجائے گا جب میرے لہو کا دریا
تب کہیں جا کے وہ موجوں کو روانی دے گا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام