خزاں کے بعد مری جاں بہار بھی آئی

غزل| عزیز نبیلؔ انتخاب| بزم سخن

خزاں کے بعد مری جاں بہار بھی آئی
مگر نبیلؔ کی وحشت میں کیا کمی آئی
یہ کس کے در پہ ستاروں کا کارواں اترا
ہوا کے دوش پہ خوشبو کی پالکی آئی
یہ کس کا خواب مری خواب گاہ میں آیا
یہ کس کی نیند مری آنکھ میں چلی آئی
وہ اپنی جیت کے قصے سنا کے رونے لگا
نہ جانے کیوں مری آنکھوں میں بھی نمی آئی
کل اپنے آپ سے باتیں ہوئیں تو ایسا ہوا
مجھے خود اپنے خیالات پہ ہنسی آئی
سنا گیا تھا کہ صحرا کو جا چکا ہے نبیلؔ
سنا گیا ہے کہ صحرا میں زندگی آئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام