خزاں میں بھی بہارِ جاوداں معلوم ہوتی ہے

غزل| مہندرسنگھ بیدی سحرؔ انتخاب| بزم سخن

خزاں میں بھی بہارِ جاوداں معلوم ہوتی ہے
جوانی ہو تو پھر ہر شے جواں معلوم ہوتی ہے
یہاں معلوم ہوتی ہے وہاں معلوم ہوتی ہے
خلش دل کی کہاں ہے اور کہاں معلوم ہوتی ہے
جفا ان کی وفا میری وفا میری جفا ان کی
محبت داستاں در داستاں معلوم ہوتی ہے
اسیرانِ قفس ہیں ہم سے پوچھو قدرِ آزادی
کہ اب بجلی بھی شاخِ آشیاں معلوم ہوتی ہے
یہ مانا عشق میں صبر و سکوں سے کچھ نہیں حاصل
مگر آہ و فغاں بھی رائیگاں معلوم ہوتی ہے
پیامِ عشق دیتے ہیں وہ جب نظروں ہی نظروں میں
وہ اک ساعت حیاتِ جاوداں معلوم ہوتی ہے
لطافت عشق کی ہے مانعِ نظارۂ صورت
محبت خود حجابِ درمیاں معلوم ہوتی ہے
بڑی مشکل سے سمجھے ہیں شہیدِ عشق کا منصب
سحرؔ اب زندگی بارِ گراں معلوم ہوتی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام