میں شرابِ تشنگی میں خود سراسر غرق تھا

غزل| کیفؔ احمد صدیقی انتخاب| بزم سخن

میں شرابِ تشنگی میں خود سراسر غرق تھا
ورنہ ہر دشتِ نفس میں اک سمندر غرق تھا
لوگ زیرِ آب میری جستجو میں تھے مگر
میں سرابِ ریگ میں دریا کے باہر غرق تھا
آتشِ سوزِ دروں سے خاک تھا سارا وجود
ظاہراً شبنم کے اشکوں سے گلِ تر غرق تھا
میں خود اپنے آپ ہی قاتل بھی تھا مقتول بھی
یعنی اپنے خون میں اپنا ہی خنجر غرق تھا

آسماں سے ہو رہا تھا کیفؔ شعروں کا نزول
میں تلاشِ فکر میں جب اپنے اندر غرق تھا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام