حیا اخفائے رازِ دل کی اک تدبیر ہوتی ہے

غزل| ارشدؔ بجنوری انتخاب| بزم سخن

حیا اخفائے رازِ دل کی اک تدبیر ہوتی ہے
نظر جھکتی ہے وہ جس میں کوئی تحریر ہوتی ہے
رواجاً زحمتِ اظہار دی جاتی ہے ہونٹوں کو
محبت میں خموشی ورنہ خود تقریر ہوتی ہے
ہر اک دیوانہ پابندِ وفا رہتا ہے آخر تک
جنوں کے پاؤں میں بھی ہوش کی زنجیر ہوتی ہے
سبھی کرتے ہیں دعوے صاحبِ ایمان ہونے کا
مگر ہر دل کے آئینے میں اک تصویر ہوتی ہے
جہاں برقِ تپاں کی یورشِ پیہم کا امکاں ہو
عموماً آشیانے کی وہیں تعمیر ہوتی ہے
نہ جانے کون سے خوش بخت کا یہ قول ہے ارشدؔ
کہ آہِ صبح گاہی میں بڑی تاثیر ہوتی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام