مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے

غزل| آتشؔ بہاول پوری انتخاب| بزم سخن

مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے
میری بھی کوئی قیمت ہو گئی ہے
وہ جب سے ملتفت مجھ سے ہوئے ہیں
یہ دنیا خوب صورت ہو گئی ہے
چڑھایا جا رہا ہوں دار پر میں
بیاں مجھ سے حقیقت ہو گئی ہے
رواں دریا ہیں انسانی لہو کے
مگر پانی کی قلت ہو گئی ہے
مجھے بھی اک ستم گر کے کرم سے
ستم سہنے کی عادت ہو گئی ہے
حقیقت یہ ہے ہم کیا اُٹھ گئے ہیں
وفا دنیا سے رخصت ہو گئی ہے
غمِ جاناں میں جب سے مبتلا ہوں
غمِ دوراں سے فرصت ہو گئی ہے
اب ان کی کفرِ سامانی بھی آتشؔ
دل و جاں پر عبارت ہو گئی ہے​


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام