پسند آیا تو لے لو دل ہمارا

غزل| آسیؔ غازیپوری انتخاب| بزم سخن

پسند آیا تو لے لو دل ہمارا
مگر دل پھر بھی کس قابل ہمارا
کوئی ہے جو نہ ہو حامل ہمارا
مگر ملنا ہوا مشکل ہمارا
نہیں ہوتا کہ بڑھ کر ہاتھ رکھ دیں
تڑپنا دیکھتے ہیں دل ہمارا
جمال ان کا ہے آبِ زندگانی
مگر جینا کیا مشکل ہمارا
چھری بھی تیز ظالم نے نہ کر لی
بڑا بے رحم ہے قاتل ہمارا
تموج بحرِ غم کا دیکھتے ہو
حبابِ دل ہے دریا دل ہمارا
یہ گرمی آتشِ دوزخ میں واعظ
کوئی نالہ ہوا شامل ہمارا
چلا سفاک یہ جی میں نہ آئی
تڑپتا ہے ابھی بسمل ہمارا
نہ آنا ہم تمہارا دیکھ لیں گے
جو نکلا جذبِ دل کامل ہمارا
دلِ گردوں سے لے کر تا دلِ دوست
گیا نالہ کئی منزل ہمارا
تأمل ہے جو پاس آنے میں ان کو
وہاں جانا بھی لا حاصل ہمارا
دمِ نزع آنے کا وعدہ تو دیکھو
کہ اب مرنا بھی ہو مشکل ہمارا
اگر قابو نہ تھا دل پر برا تھا
وہاں جانا سرِ محفل ہمارا
بھلا وہ دشمنِ جاں دوست ہوگا
ہوا پندار اب باطل ہمارا
یہ حالت ہے تو شاید رحم آئے
کوئی اس کو دکھا دے دل ہمارا
محیطِ جلوۂ بے رنگ ہے دل
کہیں پیدا نہیں ساحل ہمارا
انہیں کی چھیڑ تھی اس رنگ میں بھی
خیالِ غیر تھا باطل ہمارا
طلب ان کی پھریں ہم گرد اپنے
جنونِ عشق تھا کامل ہمارا
مزا ہر آن میں ہے شانِ نو کا
مگر جب دل نہ ہو غافل ہمارا
متاعِ گرمیٔ بازارِ جاں ہے
وہ برقِ خرمنِ حاصل ہمارا
تکلم ہم سے یارِ بے دہن کا
نہ کیوں ہو مدعی قائل ہمارا
کبھی ہم کو نہ ڈھونڈھا تو نے اے قیس
دل ہر ذرہ تھا محمل ہمارا
محیطِ رنگ نیرنگ فنا ہیں
جمالِ دوست ہے ساحل ہمارا
نہ جانا کچھ طرازِ گنج اسرار
امانت دار تھا جاہل ہمارا
وہ کاش اتنا قیامت میں تو پوچھیں
کہاں ہے آسؔیِ بے دل ہمارا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام