سوزِ دل چاہیے چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے

نعت| سید اقبالؔ عظیم انتخاب| بزم سخن

سوزِ دل چاہیے چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے
ہوں میسر مدینے کی گلیاں اگر آنکھ کافی نہیں ہے نظر چاہیے
ان کی محفل کے آداب کچھ اور ہیں لب کشائی کی جرأت مناسب نہیں
ان کی سرکار میں التجا کے لئے جنبشِ لب نہیں چشمِ تر چاہیے
اپنی رودادِ غم میں سناؤں کسے میرے دکھ کو کوئی اور سمجھے گا کیا؟
جس کی خاکِ قدم بھی ہے خاکِ شفا میرے زخموں کو وہ چارہ گر چاہیے
رونقیں زندگی کی بہت دیکھ لیں اب میں آنکھوں کا اپنی کروں گا بھی کیا
اب نہ کچھ دیدنی ہے نہ کچھ گفتنی مجھ کو آقا کی بس اک نظر چاہیے
میں گدائے درِ شاہِ کونین ہوں شیش محلوں کی مجھ کو تمنّا نہیں
ہو میسر زمیں پر کہ زیرِ زمیں مجھ کو طیبہ میں اک اپنا گھر چاہیے
ان نئے راستوں کی نئی روشنی ہم کو راس آئی ہے اور نہ راس آئے گی
ہم کو کھوئی ہوئی روشنی چاہیے ہم کو آئینِ خیر البشر چاہیے
گوشہ گوشہ مدینے کا پر نور ہے سارا ماحول جلوؤں سے معمور ہے
شرط یہ ہے کہ ظرفِ نظر چاہیے دیکھنے کو کوئی دیدہ ور چاہیے
مدحتِ سرورِ دو جہاں کے لئے صرف لفظ و بیاں کا سہارا نہ لو
فنِ شعری ہے اقبالؔ اپنی جگہ نعت کہنے کو خونِ جگر چاہیے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام