کیسی گہری بات ملی ہے ہم کو اک دیوانے سے

غزل| امجد اسلام امجدؔ انتخاب| بزم سخن

کیسی گہری بات ملی ہے ہم کو اک دیوانے سے
ساری گرہیں کھل جاتی ہیں ایک گرہ کھل جانے سے
آخر آخر سارے رشتے اک جیسے ہو جاتے ہیں
ملتی ہے ہر ایک حقیقت جا کر اک افسانے سے
خاموشی سے پھیل رہا تھا چاروں جانب سناٹا
کیسے سب کچھ بدل گیا ہے ایک آواز لگانے سے
دل رستے میں آن پڑی ہے کیسی الجھن آنکھوں کو
بستی تو ہے نئی نئی پر لوگ نہیں انجانے سے
کیا ہے جو اب نسلِ نو نے ہم کو ہنس کر ٹال دیا
ہم بھی کب اس دورِ جنوں میں سمجھے تھے سمجھانے سے
طاقت اور دولت کا نشہ بس اس کو ظاہر کر دیتا ہے
ورنہ فطرت کب بدلی حالات کے بدلے جانے سے
پہلے وہ خاموش رہا پھر یک دم شعلے پہن لیے
ہم نے اک دن پوچھی تھی اک بات کسی پروانے سے

ہونا یا نہ ہونا امجدؔ ایک نظر کا دھوکہ ہے
رکتی ہے رفتار جہاں کب اپنے آنے جانے سے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام