رنج دے کے آخر کیوں مسکرا نہیں دیتے

غزل| نوازؔ دیوبندی انتخاب| بزم سخن

رنج دے کے آخر کیوں مسکرا نہیں دیتے
تم سزا تو دیتے ہو حوصلہ نہیں دیتے
منزلیں تو خود اپنے عزم ہی سے ملتی ہیں
رہنما مسافر کو راستہ نہیں دیتے
اس کو موج ساحل پر خود ہی چھوڑ جاتی ہے
جس کو کشتیوں والے آسرا نہیں دیتے
کیا غضب کیا تم نے کم سنوں کے ہاتھوں میں
دل تو دل ہے پھر آخر آئینہ نہیں دیتے
آج تک نہ جانے کس کشمکش میں ہیں منصف
بحث روز سنتے ہیں فیصلہ نہیں دیتے
موسموں کی سازش سے پیڑ پھل تو دیتے ہیں
نفرتوں کے پھل لیکن ذائقہ نہیں دیتے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام