کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے

غزل| منیرؔ نیازی انتخاب| قتیبہ جمال

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں
اب ان بے انت خلاؤں میں خواب کیا دیتے
ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل
انہیں بس ایک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے
شرابِ دل کی طلب تھی شرع کے پہرے میں
ہم اتنی تنگی میں اس کو شراب کیا دیتے

منیرؔ دشت شروع سے سراب آسا تھا
اس آئینے کو تمنا کی آب کیا دیتے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام