اڑنا بھی ہے اور سانس بھی کمزور بہت ہے

غزل| عباس تابشؔ انتخاب| بزم سخن

اڑنا بھی ہے اور سانس بھی کمزور بہت ہے
ہو ہاتھ میں تیرے تو یہی ڈور بہت ہے
سیسہ ہی میرے کان میں بھر دے کوئی آ کر
میں سو نہیں سکتا کہ یہاں شور بہت ہے
رہنے دے اسی جس میں مجھ کو کوئی دن اور
مجھ تنگیٔ بے جا کو یہی گور بہت ہے
کچھ لوگ بھی کر دیتے ہیں مجبورِ تماشہ
کچھ اپنی طبیعت بھی تو منہ زور بہت ہے
رکھتے نہیں دل میں تری خواہش کے سوا کچھ
اس قصرِ تمنا کو یہی چور بہت ہے
کل بھی اسی موسم میں اُسے یاد کیا تھا
ساون کی گھٹا آج بھی گھنگھور بہت ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام