عشق میں اس سے کروں گا جسے اردو آئے

غزل| عباس تابشؔ انتخاب| بزم سخن

زخم سے پھول اُگے پھول سے خوشبو آئے
تجھ سے وہ بات کرے جس کو یہ جادو آئے
تیرے ہونٹوں پہ کسی اور کی باتیں آئیں
میری آنکھوں میں کسی اور کے آنسو آئے
اتنا آسان نہیں ملّاح کا بیٹا ہونا
نائو ڈوبی تو میرے ہاتھ میں چپّو آئے
یہ جو ہر پھول کی مٹھی سے نکل جاتی ہے
عین ممکن ہے کبھی یہ میرے قابو آئے
اس نے مجھ میں گلِ امید کھلا رکھا ہے
تاکہ مجھ سے نہ کسی اور کی خوشبو آئے
چاند چہرے مجھے اچھے تو بہت لگتے ہیں
عشق میں اس سے کروں گا جسے اردو آئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام