ہر مرحلے سے یوں تو گزر جائے گی یہ شام

غزل| شاہدؔ ماہلی انتخاب| بزم سخن

ہر مرحلے سے یوں تو گزر جائے گی یہ شام
لے کر بلائے درد کدھر جائے گی یہ شام
پھیلیں گی چار سمت سنہری اداسیاں
ٹکرا کے کوہِ شب سے بکھر جائے گی یہ شام
رگ رگ میں پھیل جائے گا تنہائیوں کا زہر
چپکے سے میرے دل میں اتر جائے گی یہ شام
خونیں بہت ہیں مملکتِ شب کی سرحدیں
ہاتھوں میں لے کے کاسۂ سر جائے گی یہ شام
ٹوٹا یقین زخمی امیدیں سیاہ خواب
کیا لے کے آج سوئے سحر جائے گی یہ شام
ٹھہرے گی ایک لمحے کو یہ گردشِ حیات
تھم جائے گی یہ صبح ٹھہر جائے گی یہ شام

مہکے گا لفظ و معنی سے شاہؔد دیارِ صبح
لے کر مری غزل کا اثر جائے گی یہ شام


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام