جب دل ہی نہیں باقی وہ آتشِ پارا سا

غزل| اسلمؔ کولسری انتخاب| بزم سخن

جب دل ہی نہیں باقی وہ آتشِ پارا سا
کیوں رقص میں رہتا ہے پلکوں پہ شرارا سا
وہ موج ہمیں لے کر گرداب میں جا نکلی
جس موج میں روشن تھا سرسبز کنارا سا
تارا سا بکھرتا ہے آکاش سے یا کوئی
ٹھہرے ہوئے آنسو کو کرتا ہے اشارا سا
تنکوں کی طرح ہر شب تن من کو بہا لے جائے
اک برسوں سے بچھڑی ہوئی آواز کا دھارا سا

جیسے کوئی کم کم ہو شاید وہی اسلمؔ ہو
اس راہ سے گزرا ہے اک ہجر کا مارا سا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام