جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی

غزل| علامہ محمد اقبالؔ انتخاب| قتیبہ جمال

جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی
عطارؔ ہو رومیؔ ہو رازیؔ ہو غزالیؔ ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی
نومید نہ ہو ان سے اے رہبرِ فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہٰی
آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام