امید وہیم کے گیسو سنوارتے ہی رہے

غزل| معین احسن جذبیؔ انتخاب| بزم سخن

امید وہیم کے گیسو سنوارتے ہی رہے
کسی طرح شبِ ہجراں گزارتے ہی رہے
جنوں کی راہ الگ تھی مگر خرد والے
ہر ایک گام پہ ہم کو پکارتے ہی رہے
فروغِ بادہ سے خیرہ تھی اک جہاں کی نظر
یہ اہل ہوش مگر جی کو مارتے ہی رہے
دل وجگر میں رہا ایک قطرہ خوں جب تک
چمن پرست چمن کو نکھارتے ہی رہے
فسردگی تو نہ تھی بے سبب مگر جذبؔی
ہم اپنے ڈوبتے دل کو ابھارتے ہی رہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام