مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے

غزل| معین احسن جذبیؔ انتخاب| بزم سخن

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
وعدے کی وفا تم سے نہ ہوئی گو جان پہ میرے بن ہی گئی
گر جھوٹا ہوں جھوٹا ہی سہی اب تم کو جھوٹا کون کرے
ہاں وادیٔ ایمن بھی ہے وہی ہاں برق کا مسکن بھی ہے وہی
اور ہوش کا خرمن بھی ہے وہی پر اُن سے تقاضا کون کرے
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں سے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام