کوئی محفل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے

غزل| اصغرؔ گونڈوی انتخاب| بزم سخن

کوئی محفل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے
غبارِ قیس خود اُٹھتا ہے خود برباد ہوتا ہے
قفس کیا حلقہ ہائے دام کیا رنجِ اسیری کیا
چمن پر مٹ گیا جو ہر طرح آزاد ہوتا ہے
یہ سب نا آشنائے لذتِ پرواز ہیں شاید
اسیروں میں ابھی تک شکوۂ صیاد ہوتا ہے
بہار انجام سمجھوں اس چمن کا یا خزاں سمجھوں
زبانِ برگِ گل سے مجھ کو کیا ارشاد ہوتا ہے
ازل میں اک تجلی سے ہوئی تھی بے خودی طاری
تمہیں کو میں نے دیکھا تھا کچھ ایسا یاد ہوتا ہے
سمائے جا رہے ہیں اب وہ جلوے دیدہ و دل میں
یہ نظارہ ہے یا ذوقِ نظر برباد ہوتا ہے
یہاں کوتاہیٔ ذوقِ عمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے
یہاں مستوں کے سر الزامِ ہستی ہی نہیں اصغرؔ
پھر اس کے بعد ہر الزام بے بنیاد ہوتا ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام