اس کو بھی ہم سے محبت ہو ضروری تو نہیں

غزل| صباؔ اکبر آبادی انتخاب| بزم سخن

اس کو بھی ہم سے محبت ہو ضروری تو نہیں
عشق ہی عشق کی قیمت ہو ضروری تو نہیں
ایک دن آپ کی برہم نگہی دیکھ چکے
روز اک تازہ قیامت ہو ضروری تو نہیں
میری شمعوں کو ہواوؤں نے بجھایا ہوگا
یہ بھی ان کی ہی شرارت ہو ضروری تو نہیں
اہلِ دنیا سے مراسم بھی برتنے ہوں گے
ہر نفس صرف عبادت ہو ضروری تو نہیں
دوستی آپ سے لازم ہے مگر اس کے لئے
ساری دنیا سے عداوت ہو ضروری تو نہیں
پرسشِ حال کو تم آؤ گے اس وقت مجھے
لب ہلانے کی بھی طاقت ہو ضروری تو نہیں
سیکڑوں در ہیں زمانے میں گدائی کے لئے
آپ ہی کا درِ دولت ہو ضروری تو نہیں
باہمی ربط میں رنجش بھی مزا دیتی ہے
بس محبت ہی محبت ہو ضروری تو نہیں
ظلم کے دور سے اکراہ دلی کافی ہے
ایک خوں ریز بغاوت ہو ضروری تو نہیں
ایک مصرعہ بھی جو زندہ رہے کافی ہے صباؔ
میرے ہر شعر کی شہرت ہو ضروری تو نہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام