سادگی تو ہماری ذرا دیکھئے اعتبار آپ کے وعدے پر کر لیا

غزل| صباؔ اکبر آبادی انتخاب| بزم سخن

سادگی تو ہماری ذرا دیکھئے اعتبار آپ کے وعدے پر کر لیا
بات تو صرف اک رات کی تھی مگر انتظار آپ کا عمر بھر کر لیا
عشق میں الجھنیں پہلے ہی کم نہ تھیں اور پیدا نیا درد سر کر لیا
لوگ ڈرتے ہیں قاتل کی پرچھائی سے ہم نے قاتل کے دل میں بھی گھر کر لیا
ذکر اک بے وفا اور ستم گر کا تھا آپ کا ایسی باتوں سے کیا واسطہ
آپ تو بے وفا اور ستم گر نہیں آپ نے کس لئے منہ ادھر کر لیا
زندگی بھر کے شکوے گلے تھے بہت وقت اتنا کہاں تھا کہ دہراتے ہم
ایک ہچکی میں کہہ ڈالی سب داستاں ہم نے قصّے کو یوں مختصر کر لیا
بے قراری ملے گی مجھے نہ سکوں چین چھن جائے گا نیند اڑ جائے گی
اپنا انجام سب ہم کو معلوم تھا آپ نے دل کا سودا مگر کر لیا
زندگی کے سفر میں بہت دور تک جب کوئی دوست آیا نہ ہم کو نظر
ہم نے گھبرا کے تنہائیوں سے صباؔ ایک دشمن کو خود ہم سفر کر لیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام