سورج سے رس بھنور سے تو ساحل کشید کر

غزل| انجمؔ عثمان انتخاب| بزم سخن

سورج سے رس بھنور سے تو ساحل کشید کر
صحرا کے ذرّے ذرّے سے محمل کشید کر
ان رائیگانیوں سے کنارا نہ کر قبول
لا حاصلی کے کرب سے حاصل کشید کر
بھر تو ستارہ وار اڑانیں فلک کے پار
اور لا مکاں سے پھر کوئی منزل کشید کر
جذبوں کی حدتوں سے تو برفاب کھینچ لے
مینائے عشق سے تو مرا دل کشید کر
تسخیر کر فشار رگ آفتاب کو
قوسِ قزح سے پھر حد فاصل کشید کر
امکان سے تحیر و شیشے سے عکس چھین
ظلماتِ شب سے تو مہِ کامل کشید کر
غم ہائے نارسائی ذوق طلب سمیٹ
ارزانیوں سے شوق کی مشکل کشید کر
بادہ و انگبیں سے مرے خال و خد سنوار
مانی کے شاہکار سے اک تل کشید کر
سوزِ دروں تراش کسی برف زار سے
یخ بستہ اشک مے کے مقابل کشید کر
انجمؔ شرار عشق ہے ہنگامۂ الست
بند حجاب سے اسے غافل کشید کر



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام